If You Have Problem in Reading then Click Here to Download Font
(اہل علم کي نظر ميں۔)
احمد نديم قاسمي |
||||
جب ميں
استفسار کرنے والوں کو بتاتا ہوں کہ جب ميں نے شعر کہنا شروع کيا تو بيک
وقت اقبال اور اختر شيراني سے متاثر تھا، تو وہ بہت حيرت کا اظہار کرتے
ہيں وہ کہتے ہيں کہ يہ "بعد المشرقين" انکي سمجھ ميں نہيں آيا اور ميں انہيں
سمجھا بھي نہيں پاتا، ليکن يہ حقيقت ہے کہ ميں آغاز ميں انہي دو شخصيات
سے متاثر تھا بعد ميں ميري پسند ميں غالب اور مير بھي داخل ہو گئے مگر
اقبال اور اختر شيراني کا طلسم قائم رہا اور اب تک قائم ہے۔ ميں سمجھتا
ہوں کہ اگر اقبال ميرے دل ميں اتر گئے تھے تو اختر ميرے دل ميں گھر کر
گئے تھے يقينا کبھي کبھي اقبال بھي ميرے دل ميں جھانکنے لگتے ہيں اور
اختر بھي ميرے ذہن پر دستک ديتے ہيں مگر يہ سراسر ذيلي نوعيت کا تاثر ہے
ورنہ اقبال اور اختر شيراني کے وہي صحيح مقامات ہيں جو ميں نے عنفوان
شباب کے دنوں ميں متعين کر رکھے تھے۔ حق بات يہ ہے کہ اختر شيراني کي شاعرانہ خصوصيات کا غير مشروط اعتراف کيے بغير اردو شاعري کي سچي تاريخ مرتب ہي نہيں ہو سکتي يقينا اختر کي وفات کے بعد ہمارے نقادوں نے اس بے مثال شاعر سے گناہ کي حد تک بے اعتنائي برتي مگر عالمي تاريخ شعر پر ايک نظر ڈالنے سے معلوم ہو گا کہ خالص کي پہچان ميں بعض اوقات ذرا ذيادہ مدت گزر جاتي ہے سامنے کي مثال مرزا غالب کي ہے کہ اپني زندگي ميں وہ يہ کہتے سنائي ديتے ہيں "ہمارے شعر ہيں اب صرف دل لگي کے اسد کھلا کہ فائدہ عرض ہنر ميں خاک نہيں" مگر غالب ہي ہماري فضائے شعر پر ابر بہار بن کر چھا گيا اور اب تک چھايا ہوا ہے۔ مجھے يقين ہے کہ اختر کي انفرادي عظمت کے اعتراف کا وقت بھي دير يا بدير آئے گا اور اختر کي بازيافت کا جو سلسلہ شروع کيا گيا ہے وہ ايک نہ ايک دن ملک گير اور اس کے بعد آفاق گير ثابت ہو گا اور ہمارے مورخين ادب اور ناقدان کرام کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اختر شيراني کے بھرپور تذکرے کے بغير ان کے دلکش کلام کے حسن کو اجاگر کيے بغير ادب کي تاريخ مرتب ہي نہيں ہو سکتي۔ (اختر شيراني ميموريل سوسائٹي کےنام پيغام) |
||||
|
All Rights
Reserved |